(۳۰۴) اگر طواف کرنے والا مطاف سے خارج ہو کر کعبہ میں داخل ہو جائے تو اس کا طواف باطل ہو جائے گا جو دوبارہ کرنا ہوگا۔ اگر آدھے طواف کے بعد مطاف سے باہر ہو تو بہتریہ ہے کہ پہلے اس طواف کو پورا کرے اور پھر دوبارہ طواف کرے ۔
(۳۰۵) اگر کوئی مطاف سے نکل کر چبوترے سے (شازروان) پر جلے تو اتنی مقدار میں طواف باطل ہوگا چنانچہ اتنی مقدار کا تدارک و جبران کرنا ضروری ہے۔ احوط اولی یہ ہے کہ اتنی مقدار تدارک اور طواف پورا کرنے کے بعد یہ طواف دوبارہ بھی کرے۔ اسی طرح احوط اولی یہ ہے طواف کرنے والا دوران طواف اپنے ہاتھ سے کعبہ کی دیوار تک ارکان وغیرہ کو چھونے کے لییے نہ پھلائے ۔
(۳۰۶) اگر طواف کرنے والا حج اسمعیل کے اندر چلا جائے چاہے مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے یا بھول کر تو اس کا یہ چکر باطل ہو جائے گا اور ضروری ہے کہ اسے دوبارہ انجام دے۔ احوط یہ ہے کہ طواف پورا کرنے کے بعد دوبارہ انجام دے۔ حجر اسمعیل کے اوپر سے گزرنے کا بنابر احوط وہ حکم ہے جو حکم اندر جانے کا ہے نیز احوط یہ ہے کہ طواف کرتے وقت حجر اسمعیل کی دیوار ہاتھ نہ رکھے۔
(۳۰۷) مستحب طواف کی طرح واجب طواف بھی کسی ضرورت و مجبوری سے بلکہ بنابر اظہر بلا ضرورت و مجبوری بھی توڑنا جائز ہے ۔
(۳۰۸) اگر واجب طواف چوتھا چکر پورا ہونے سے پہلے بغیر کسی وجہ کے توڑا جائے تو طواف باطل ہو جائے گا اور دوبارہ بجا لانا ضروری ہے لیکن اگر چوتھا چکر پورا کرنے کے بعد توڑا جائے تو احوط یہ ہے کہ اس طواف کو بھی پورا کرے اور دوبارہ بھی انجام دے۔ تاہم مستحب طواف میں کہ جہاں سے توڑا گیا ہو وہیں سے شروع کرکے پورا کرے۔ چاہے چو تھے چکر سے پہلے توڑے یا بعد میں جب تک کہ عرفا موالات ختم نہ ہو جائے ۔
(۳۰۹) اگر عورت کو دوران طواف حیض آ جائے تو واجب ہے کہ طواف توڑ کر فورا مسجد الحرام سے باہر نکل جائے اور اس طواف کا حکم مسئلہ نمبر ۲۹۱ میں بیان ہو چکا ہے۔ اسی طرح اگر طواف کرنے والے سے دوران طواف حدث سرزد ہو جائے یا دوران طواف اسے بدن یا لباس کے نجس ہونے کا پتہ چل جائے تو اس کا حکم مسئلہ نمبر ۲۸۵ اور تین سو میں بیان ہو چکا ہے ۔
(۳۱۰) اگر بیماری یا اپنی یا کسی مومن بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کوئی اپنا واجب طواف کر چوتھا چکر سے پہلے توڑے تو ظاہر یہ ہے کہ طواف باطل ہے اور دوبارہ کرنا ضروری ہے ۔ لیکن اگر چوتھے چکر کے بعد توڑے تو اظہر یہ ہے کہ طواف صحیح ہوگا لہذا واپس آکر جہاں سے توڑا تھا وہیں سے شروع کرے اور احوط یہ ہے کہ اسے پورا کرنے کے بعد دوبارہ بھی بجا لائے تاہم مستحب طواف میں جائز ہے کہ جہاں سے چھوڑا تھا وہیں سے شروع کرے چاہے چوتھے چکر سے پہلے چھوڑا ہو۔
(۳۱۱) طواف کے دوران آرام کرنا بیٹھنا یا لیٹنا جائز ہے لیکن ضروری ہے کہ اتنی دیر بیٹھے یا لیٹے کہ تسلسل کا تاثر ختم نہ ہو۔ چنانچہ اتنی دیر لیٹنے یا بیٹھنے سے تسلسل ٹوٹ جائے تو طواف باطل ہو جائے گا لہذا پھر سے شروع کرنا ضروری ہے ۔
(۳۱۲) اگر کوئی واجب نماز کو وقت پر پڑھنے کے لیے یا نماز کو جماعت سے پڑھنے کے لیے یا نافلہ نماز کو پڑھنے کے لیے جب کہ اس کا وقت تنگ ہو طواف توڑے تو جہاں سے طواف چھوڑا ہے نماز کے بعد وہیں سے شروع کرے چاہے طواف واجب ہو یا مستحب اور چاہے چوتھے چکر سے پہلے چھوڑا ہو یا بعد میں اگر چہ احوط یہ ہے کہ جب طواف چوتھے چکر سے پہلے چھوڑا ہو تو اس طواف کو پورا کرکے دوبارہ طواف کرے ۔
(۳۱۳) اگر طواف میں بھولے سے کمی ہو جائے اور تسلسل ختم ہونے سے پہلے یاد آجائے تو کمی کو پورا کرے اور اس کا طواف صحیح ہوگا۔ اسی طرح اگر تسلسل ختم ہونے کے بعد یاد آئے اور ایک یا دو یا تین چکر بھولا ہو تو انہیں بجا لائے اور اس کا طواف بھی صحیح ہو جائے گا۔ اگر خود انجام دینے) پر قادر نہ ہو چاہیے اس لیے کہ اپنے شہر واپس آکریاد آیا ہو تو کسی کو نائب بنائے۔ لیکن اگر تین سے زیادہ چکر بھول گیا ہو ہو تو واپس جا کر جتنے چکر کم ہوں انہیں انجام دے۔ احوط یہ ہے کہ اس طواف کو پوراکرنے کے بعد دوبارہ بھی انجام دے ۔
طواف میں زیادتی کی پانچ صورتیں ہیں:
۱۔ طواف کرنے والا زیادتی کو اس طواف یا دوسرے طواف کا جز نہ سمجھے یعنی سات چکر پورے کرنے کے بعد مستحب کی نیت سے ایک اور چکر انجام دینے سے طواف باطل نہیں ہوگا۔
۲۔ طواف شروع کرتے وقت ہی یہ ارادہ ہو کہ زائد حصے کو اس طواف کے جز کی نیت سے انجام دے گا تو اس صورت میں اس کا طواف باطل ہے اور ضروری ہے کہ طواف کو دوبارہ انجام دے۔۔ اسی طرح اگر طواف کے دوران اس قسم کا ارادہ کرے اور کچھ حصہ زیادہ انجام دے تو یہی حکم ہے لیکن اگر زیادہ حصہ نیت کے بعد انجام نہ دے تو نیت کرنے سے پہلے والے چکر کے باطل ہونے میں اشکال ہے ۔
۳۔ زائد چکر اس نیت سے کرے کہ جس طواف سے فارغ ہوا ہے یہ اس کا جز ہے جبکہ عرفا موالات ختم نہ ہوا ہو یعنی طواف سے فارغ ہونے کے بعد زاید چکر کے جز ہونے کا قصد کرے تو اظہر یہ ہے کہ طواف باطل ہے ۔
۴۔ زائد چکر اس نیت سے کرے کہ یہ دوسرے طواف کا جز ہے اور پھر دوسرے طواف کا کوئی بھی جز بجا نہ لائے تو اس صورت میں نہ ہی زیادتی وجود میں آیئگی اور نہ ہی قران ہوگا لیکن بعض صورتوں میں ممکن ہے کہ اس وجہ سے طواف کرنے والے کو قصد قربت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اس کا طواف باطل بھی ہو سکتا ہے مثلا کوئی شخص قران کی نیت رکھتا ہو جو کہ حرام ہے اور جانتا بھی ہو کہ قران کی وجہ سے طواف باطل ہو جاتا ہے تو اس صورت میں قصد قربت ثابت نہیں اگرچہ اتفاقا عملی طور پر قران بھی واقع نہ ہو ۔
(۳۱۴) اگر سہوا طواف میں چکر زیادہ ہو جائے اور رکن عراقی تک پہنچنے کے بعد یاد آئے تو زائد چکر کو باقی چکروں کے ساتھ ملا کر طواف کو پورا کرے۔ بنابر احوط یہ ہے کہ طواف واجب یا مستحب کا تعین کیے بغیر یعنی مطلقا قصد قربت سے انجام سے دے اور اس کے بعد چار رکعت نماز پڑھے افضل بلکہ احوط یہ ہے کہ دونوں نمازوں کو جدا جدا پڑھے یعنی دو رکعت سعی سے پہلے واجب طواف کی نیت سے اور دو رکعت سعی کے بعد مستحب طواف کی نیت سے اسی طرح اگر رکن عراقی تک پہنچنے سے پہلے یاد آئے تو بھی بنا بر احوط یہی حکم ہے ۔
(۳۱۵) چکروں کی تعداد یا چکروں کے صحیح ہونے کے بارے میں شک طواف کے بعد یا موقع گزر جانے کے بعد شک ہو تو اس شک کی پرواہ نہ کی جائے۔ اسی طرح اگر تسلسل کے ختم ہونے یا نماز طواف شروع کرنے کے بعد شک ہو تو اس کی بھی پرواہ نہ کی جائے ۔
(۳۱۶) اگر سات چکروں کا یقین ہو اور زیادہ کے بار ے میں شک ہو کہ یہ آٹھواں چکر تھا تو ایسے شک کی پرواہ نہ کی جائے اور یہ طواف صحیح ہوگا لیکن اگر یہ شک آخری چکر پورا ہونے سے پہلے ہو تو اظہر یہ ہے کہ طواف باطل ہے چنانچہ احوط یہ ہے کہ رجاء اسے بھی پورا کرے اور دوبارہ بھی انجام دے۔
(۳۱۷) اگر چکر کے اختتام یا چکر کے دوران شک کرے کہ تیسرا چکر ہے یا چوتھا، پانچواں ہے یا چھٹا یا سات چکروں سے کم کا شک ہو تو طواف باطل ہو جائے گا حتی کہ اگر چکر کے اختتام پر چھ اور سات کا شک ہو جائے تب بھی احوط یہ ہے کہ طواف باطل ہے اگر اسی طرح سات سے کم یا زیادہ کا شک ہو مثلا آخری چکر کا چھٹا، ساتواں یا آٹھواں ہونے میں شک ہو تب بھی طواف باطل ہے ۔
(۳۱۸) اگر کسی کو چھ اور سات میں شک ہو اور حکم نہ جاننے کی وجہ سے وہ چھٹا سمجھتے ہوئے اپنا طواف تمام کرے اور اس کی جہالت، جبران و تدارک کا وقت ختم ہونے تک برقرار رہے تو بعید نہیں کہ اس کا طواف صحیح ہو ۔
(۳۱۹) طواف کرنے کے لیے جائز ہے کہ اگر اس کے ساتھی کو اس کے چکروں کی تعداد کا یقین ہو تو وہ اس کی بات پر اعتماد کر سکتا ہے ۔
(۳۲۰) اگر کوئی عمرہ تمتع میں جان بوجھ کر طواف چھوڑ دے تو چاہے حکم و مسئلہ جانتا ہو اور طواف اور عمرہ کے باقی اعمال روز عرفہ کے زوال آفتاب تک انجام دینا ممکن نہ ہو تو اس کا عمرہ باطل ہوگا چنانچہ احوط یہ ہے کہ اگر مسئلہ نہ جانتا ہو تو ایک اونٹ کفارہ بھی دے جیسا کہ اس کا ذکر طواف کے باب میں گذر چکا ہے۔ اگر حج میں جان بوجھ کر طواف چھوڑ دے تو خواہ مسئلہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو اور اس کا طواف کا جبران کرنا بھی ممکن نہ ہو تو اس کا حج باطل اور اگر مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے چھوڑا ہو تو ایک اونٹ کفارہ دینا بھی ضروری ہے ۔
(۳۲۲) اگر بھول کر طواف چھوڑ دے اور اس کا وقت ختم ہونے سے پہلے یاد آجائے تو اس کا تدارک و جبران کرے اور اظہر یہ ہے کہ سعی بھی طواف کے بعد دوبارہ انجام دے۔ اگر وقت ختم ہونے کے بعد یاد آئے مثلا عمرہ تمتع کا طواف وقوف عرفات تک بھولا رہے یا حج کا طواف ماہ ذی الحجہ تمام ہونے تک یاد نہ آئے تو طواف کی قضا واجب ہے اور احوط یہ ہے کہ سعی بھی طواف کے بعد دوبارہ انجام دے۔
(۳۲۳) اگر کوئی طواف بھول جائے یہاں تک کہ وطن واپس پہنچ کر اپنی بیوی سے مجامعت کر لے تو واجب ہے کہ اگر حج کا طواف بھولا ہو تو ایک قربانی منی بھیجے اور اگر عمرہ کا طواف بھولا ہو تو ایک قربانی مکہ بھیجے اور دنبہ کی قربانی کافی ہے۔
(۳۲۴) اگر بھولا ہوا طواف اس وقت یاد آئے جب خود طواف انجام دے سکتا ہو تو طواف کی قضا بجا لائے چاہے احرام اتار چکا ہو تاہم دوبارہ احرام باندھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر مکہ سے نکل جانے کے بعد یاد آئے تو مکہ میں داخل ہونے کے لیے احرام باندھنا ضروری ہے۔ سوائے ان حالتوں کے جن کا بیان مسئلہ ۱۴۱ میں ہو چکا ہے ۔
(۳۲۵) وہ چیزیں جو محرم پر حرام تھیں اور جن کا حلال ہونا طواف پر موقوف تھا وہ طو اف بھولنے والے پر اس وقت تک حلال نہیں ہونگی جب تک وہ خود یا اس کا نائب طواف کی قضا نہ کرے ۔
(۳۲۶) اگر مکلف کسی بیماری، ہڈی ٹوٹنے یا کسی اور وجہ سے خود طواف نہ کر سکتا ہو اور نہ ہی کسی کی مدد سے انجام دے سکتا ہو تو واجب ہے کہ اسے طواف کروایا جائے یعنی کوئی دوسرا شخص اسے کندھوں پر اٹھا کر طواف کرائے یا کسی گاڑی وغیرہ میں بیٹھا کر طواف کرائے، احوط اولی یہ ہے کہ طواف کرتے وقت حاجی کے پاؤں زمین کو چھو رہے ہوں۔ اگر اس طرح سے بھی طواف کرنا ممکن نہ ہو تو واجب ہے کہ اگر نائب بنا سکتا ہو تو نائب بنائے جو اس کی جانب سے طواف کرے۔ اگر نائب نہ بنا سکتا ہو مثلا بیہوش ہو تو اس کا ولی یا کوئی اور شخص اس کی جانب سے طواف کرے یہی حکم نماز طواف کا بھی ہے لہذا اگر مکلف قدرت رکھتا ہو توتو خود نماز پڑھے اور اگر خود نہ پڑھ سکتا ہو تو کسی کو نائب بنائے۔ (حائض اور نفساء کا حکم شرائط طواف میں بیان ہو چکا ہے)۔