مرجع: آیت الله العظمی خامنه ای
موضوع: عرفات ميں وقوف کرنا

عرفات ميں وقوف کرنا

مسئلہ ۳۸۱۔ حج کے واجبات ميں سے دوسرا واجب عرفات میں وقوف ہے۔ عرفات مکہ کے نزدیک ایک مشہور جگہ ہے اس کی حدود وادی عرنہ،  ثویہ،  اور نمرہ سے ذی مجاز تک ہے  ايک مشہور پہاڑ ہے کہ جس کي حد عرنہ،  ثويّہ اور نمرہ سے ليکر ذي المجاز تک؛ اور دو  مازم وقوف کی آخری حد ہے اور یہ عرفات کے حدود سے خارج ہيں۔

مسئلہ ۳۸۲۔  عرفات میں وقوف عبادات میں سے ہے اس لئےنیت کے ساتھ ہونا چاہیے جس کے شرائط احرام کی نیت میں بیان ہوگئے۔

مسئلہ ۳۸۳۔  وقوف سے مراد عرفات میں حاضر ہونا ہے چاہے سوار ہو يا پيدل،  کھڑا ہو یا لیٹا ہوا ہو۔

مسئلہ ۳۸۴۔ احوط يہ ہے کہ نوذي الحجہ کے زوال سے اسی دن کے غروب شرعي (نماز مغرب کا وقت) تک عرفات میں ٹھہرے اگرچہ بعيد نہيں ہے کہ وقوف کے آغاز کو  زوال کے اول سے اتنا مؤخر کرنا جائز ہو کہ جس ميں نماز ظہر ين کو انکے مقدمات سميت اکٹھا ادا کيا جاسکے۔

مسئلہ ۳۸۵۔  مذکورہ وقوف عرفہ کے دن ظہر سے نماز مغرب کے وقت تک واجب ہے ليکن اس ميں سےجو حصہ حج کا رکن صرف وہ ہے جس پر وقوف کا نام صدق کرے اور يہ ايک يادو منٹ ٹھہرنے پر بھی صدق آتا ہے اسی لیے اگر جان بوجھ کر اس مقدار وقوف کو انجام نہ دے تو اس کا حج باطل ہے ۔

مسئلہ ۳۸۶۔  شرعی غروب سے پہلے عرفات سے کوچ کرنا حرام ہے۔ پس اگر جان بوجھ کر غروب سے پہلے خارج ہوجائےیا عرفات کي حدود سے باہر نکل جائے اور نہ لوٹے تو گناہ گار ہے اور اسے ايک اونٹ  کفارہ دينا چاہیے ليکن اس کا حج صحيح ہے اور اگر قربانی ( کفارہ) دینا اس کے لئے ممکن نہ ہو تو اٹھارہ روزے رکھے اور احتیاط يہ ہے کہ قربانی کو عيد والے دن مني ميں ذبح کرے گرچہ کفارے کے جانور کو مني ميں ذبح کرنے کا وجوب نہ ہونا بعيد نہيں ہے اور اگر غروب سے پہلے عرفات ميں پلٹ آئے تو پھر اس پر کوئی کفارہ واجب نہيں ہوتا  ہے۔

مسئلہ ۳۸۷۔  اگر بھول کر يا حکم نہ جاننے کی وجہ سے غروب سے پہلے عرفات سے باہر چلا جائے تو اگروقوف کا وقت گزرنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو اس پر واجب ہے کہ لوٹ آئے اور اگر نہ لوٹے تو گناہ گارہے ليکن اس پر کفارہ نہيں ہے لیکن وقت گزرجانے کے بعد متوجہ ہو تو تب بھی اس پر کوئي چیز واجب نہيں ہے۔