مسئلہ 196 ۔ طواف کا کم یا زیادہ کرنا جائز نہیں ہے - اگر کوئی عمدا یا جہالت کی بناء پر سات دور سے زیادہ کرے اس کا طواف باطل ہے ، اور اگر طواف واجب کو کم کرے چنانچہ موالات عرفیہ فوت ہونے سے پہلے واپس آئے اور اس کی تکمیل کرے ، اس کا طواف صحیح ہے ورنہ اس کا طواف باطل ہوگا اور لازم ہے از سر نو شروع کرے۔
مسئلہ 197 ۔ اگر از روئے سہو و فراموشی طواف واجب کو ناقص چھوڑ دے ، اگر چوتھا دور تمام کرنے کے بعد ہو ، پلٹے گا اور طواف کو کامل کرے گا ( خواہ موالات ٹوٹ چکی ہو یا باقی ہو ) اور اگر چار دور کے پہلے ہو چنانچہ موالات نہ ٹوٹی ہو اس کی تکمیل کرسکتا ہے ورنہ لازم ہے نئے سرے سے طواف بجالائے۔
مسئلہ ۱۹۸ : عمرہ تمتع کے طواف کو ترک کرنے کی مختلف صورتیں ہیں :
۱۔ جب بھی عمد ترک کرے اور ”عرفات“ میں وقوف کا وقت تنگ ہوجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ حج افراد کی نیت کرے اور حج کے بعد عمرہ مفردہ بجالائے اور اگلے سال حج تمتع کو دوبارہ انجام دے (احتیاط واجب کی بناء پر عرفات میں وقوف کا وقت عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کی ظہر سے غروب تک ہے)۔
۲۔ اگر کوئی جہالت اور نادانی کی وجہ سے طواف کو ترک کردے تو اس کا حج ، حج افراد میں بدل جائے گا اور احتیاط واجب کی بناء پر اس کے بعد عمرہ مفردہ بجالائے اور اگلے سال حج تمتع کا اعادہ کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ کے طور پر ایک اونٹ کی قربانی کرے ۔
۳۔ اگر کوئی بھولے سے طواف کو ترک کردے اس کا حج صحیح ہے اور جب بھی ا س کو یاد آجائے طواف کو بجالائے (اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ سعی کو بھی دوبارہ انجام دے) اور اگر اپنے وطن واپس آگیا ہے اور واپس جانا اس کے لئے سخت ہے تو ایک نائب بنائے تاکہ وہ اس کے طواف کو انجام دے اور اس وقت تک اس پر کوئی چیز حرام نہیں ہے اور احتیاط یہ ہےکہ ایک گوسفند ، قربانی کے لئے مکہ بھیجے اور اگر مکہ قربانی بھیجانا ممکن نہ ہو تو اپنے شہر میں قربانی کرے ۔
۴۔ اگر کوئی ”طواف حج“ کو ذی الحجہ کے آخر تک انجام نہ دے ، اگر اس کا یہ کام عمدی طور سے ہے تو اس کا حج باطل ہے اور سال آئندہ اس کو اعادہ کرے اور اگر جہالت یا نادانی کی وجہ سے ہو جب بھی اس کا حج باطل ہے (چاہے جاہل مقصر ہو یا جاہل غیر مقصر)اور حج کو اعادہ کرنے کے علاوہ احتیاط یہ ہے کہ ایک اونٹ کی قربانی بھی کرے ۔
اگر سہو اور فراموشی کی وجہ سے ہو تو طواف کی قضا کرے اور اس کا حج صحیح ہے ۔اور اگر وطن واپس آنے کے بعد یامکہ سے باہر جانے کے بعد یاد آئے اور مکہ واپس جانا اس کے لئے مشکل ہو تو تو کسی کو نائب بنائے تاکہ وہ اس کی طرف سے طواف کرے (اور مستحب ہے کہ اس کے بعدسعی کو بھی دوبارہ بجالائے اور ایک گوسفند منی میں قربانی کرے او راگر ممکن نہ ہو تو اپنے وطن میں قربانی کرے اوراس مدت میں کوئی چیز اس کواوپر حرام نہیں ہے)۔
۵۔ اگر طواف نساء کو ترک کردے چاہے عمدی طور پر ہو یا فراموشی کی وجہ سے، اس کی بیوی اس پر حرام ہے ، یہاں تک کہ واپس جائے ا ور طواف نساء کو بجالائے اور اگر ممکن نہ ہو یا مشکل ہو تو نائب بنائے اور اگر مرجائے تو اس کے ولی کو اس کے قضا طواف کو انجام دینا چاہئے اور اگر متعدد طواف نساء کو ترک کردیا ہو تو سب کے لئے ایک طواف کافی ہے ۔ اور ترک طواف نساء کے اس حکم میں مرد و عورت اور بچے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ اور اس کے بغیربیوی ، شوہر کے لئے اور شوہر بیوی کے لئے حلال نہیں ہوسکتے ۔
مسئلہ ۱۹۹ : جب بھی جان بوجھ کر طواف میں سے کسی چیز کو کم کردے اور مولات ختم ہوجائیں تو اس کا طواف باطل ہے او راس کو اعادہ کرنا ضروری ہے اور اگر مولات کے ختم ہونے سے پہلے اسی کمی کو پوار کردے تو اس کا طواف صحیح ہے اور طواف واجب یا مستحب کو قطع کر کے شروع سے دوبارہ انجام دیا جاسکتا ہے ۔
مسئلہ 200 ۔ اگر عمدا طواف کو سات دور سے زیادہ بجا لائے اس کا طواف باطل ہے ، خواہ ابتداء سے زیادتی کا قصد رکھتا ہو یا سات دور تمام کرنے کے بعد اس پر اضافہ کرنے کا قصد کرے خواہ اضافہ ایک دور کے بقدر ہو یا کمتر یا بیشتر ، لیکن اگر مقدار اضافی کو بقصد طواف بجا نہ لائے ، مثلا ابتدا ء میں لوگوں کے ساتھ ایک دور حرکت کرے تا کہ طواف سے آشنا ہو پھر جس وقت حجر اسود کے مقابل پہونچے قصد طواف کرے تو یہ کام مضر نہیں ہے –
اسی طرح اگر سات دور کامل ہونے کے بعد بھیڑ کی زیادہ کی وجہ سے فوراً طواف کے دائرے سے خارج نہ ہو سکے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تھوڑا سا لوگوں کے ساتھ بلا قصد طواف کے آگے بڑھے اور پھر خارج ہو –
مسئلہ 201 ۔ اگر سہوا طواف کو سات د ور سے زیادہ بجا لائے اگر اضافہ ایک دور سے کم ہو اس کو قطع کرے گا او ر اس کا طواف صحیح ہے ، اور اگر ایک دور یا اس سے زیادہ ہو ، احتیاط یہ ہے کہ بقصد قربت اس میں اضافہ کرے تا کہ دوسرے سات د ور طواف مستحب کے عنوان سے کامل ہو جائیں - اور بعد میں دو رکعت نماز طواف واجب بجا لائے گا اور سعی کے بعد ( جہاں سعی واجب ہے ) دوسری دو رکعت طواف مستحب کے لئے بجا لائے گا اور لازم نہیں ہے قصد کرے طواف اول واجب ہے اور دوم مستحب ہے ، بلکہ اسی قدر کہ بقصد قربت انجام دے کافی ہے۔
مسئلہ 202 ۔ ” قران “ ( یعنی یکے بعد دیگرے دو طواف بجالانا اور ان کے وسط میں نماز طواف نہ پڑھنا ) اگر طواف واجب میں ہو حرام ہے ، لیکن طواف اول باطل نہ ہوگا ، مگر یہ کہ ابتداء سے ہی اس طرح کا قصد رکھتا ہو کہ اس صورت میں اس کا طواف اول صحیح ہونا مشکل ہے - -” قران “ طواف مستحب میں مکروہ ہے لیکن حرام و باطل نہیں ہے ۔
مسئلہ ۲۰۳ : اگر طواف کا کچھ حصہ سہوا چھوٹ جائے تو اس کو مسئلہ نمبر ۱۹۷ کے مطابق عمل کرنا چاہئے ۔
مسئلہ 204 ۔ اگر طواف سے فارغ ہونے کے بعد طواف کے دوروں کی تعداد یا شرائط طواف مانند وضو وغیرہ میں شک کرے اعتناء نہ کرے گا –
مسئلہ 205 ۔ اگر ” حجر اسود “ تک پہونچے کے بعد شک کرے سات دور بجالایا ہے یا آٹھ دور ، یا بیشتر ، اعتناء نہ کرے ، اور اس کا طواف صحیح ہے - اسی طرح اگر وسط دور میں شک کرے کہ ساتواں دور ہے یا بیشتر ، اس دور کو تمام کرے ، اور اس کا طواف صحیح ہے –
مسئلہ ۲۰۶ : اگر طواف واجب کے کم ہونے میں شک کرے (مثلا طواف کے چھٹے اور ساتویںدور میں یا پانچویں اور چھٹے دور میں شک کرے) تو احتیاط واجب یہ ہے کہ طواف کو ترک کردے اور دوبارہ شروع کرے ( یہ اس وقت ہے جب طواف واجب ہو) لیکن مستحب طواف میں کم پر بناء رکھے اور طواف کو کامل کرے اس طرح اس کا طواف صحیح ہے ۔
مسئله 207: گزشتہ مسائل میں ظن و گمان شک کا حکم رکھتے ہیں ، لازم ہے مطابق حکم شک عمل کرے ۔
مسئلہ 208 ۔ کوئی مانع نہیں ہے کہ انسان طواف کے دوروں کو شمار کرنے کے لئے ساتھی یا اپنے ہمراہی پر اعتماد کرے ( ا س صورت میں کہ فرد مورد اعتماد ہو ۔)
مسئلہ 209 ۔ شخص کثیر الشک کہ طواف میں زیادہ شک کرتا ہے اپنے شک کی طرف اعتناء نہ کرے اور جو پہلو اس کے لئے مناسب تر ہے اس کو اخذ کرے ، مثلاً اگر پانچ اور چھ کے درمیان شک کرے ، چھ پر بنا رکھے گا اور اگر سات اور آٹھ کے درمیان شک کرے سات پر بنا رکھے گا ۔
مسئلہ ۲۱۰ : طواف کرتے وقت باتیں کرنے، ہنسنے حتی کہ کھانے پینے سے بھی طواف باطل نہیں ہوتا ، لیکن بہتر ہے کہ طواف کرتے وقت خدا وندعالم کے ذکر اور دعا کے علاوہ کوئی بات نہ کرے اور حضور قلب کے ساتھ اس بزرگ عبادت کو انجام دے اور جس کام سے بھی حضور قلب میں کمی واقع ہو اس کام کو انجام نہ دے ۔